this blog is for you and your every day life ...you can enjoy your life ..there is no need to worry..there is a solution of every problem ..try to find it
Wednesday 16 November 2016
Thursday 10 November 2016
مسکراو بھی ....اور سبق بھی حاصل کرو
ایک مرید نے اپنے پیر سے اپنا خواب بیان کیا..
"میں دیکھتا ھوں کہ میری انگلیاں پاخانہ میں بھری ھوئی ھیں اور آپ کی انگلیاں شھد میں.. "
پیر جی نے کہا.. " ھاں ٹھیک تو ھے.. اس میں شک ھی کیا ھے.. ھم ایسے ھی ھیں اور تو ایسا ھے ... "
مرید نے کہا.. "ابھی خواب پورا نھیں ھوا.. یہ بھی دیکھا کہ میں آپ کی انگلیاں چاٹ رھا ھوں اور آپ میری انگیاں چاٹ رھے ھو... "
پیر بھت خفا ھوۓ اور اس کو برا بھلا کہہ کر مجلس سے نکال دیا....
(امثال عبرت)
حکایت کا وھی حاصل ھے کہ مرید تو پیر سے دین حاصل کرنا چاھتا ھے کہ وہ مشابہ شھد کے ھے... اور پیر مرید سے دنیا حاصل کرنا چاھتا ھے کہ وہ مشابہ پاخانہ کے ھے...
اس حکایت کے مصداق آج کل کے بعض نام نھاد پیر ھیں جن کے اندر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فقدان ھے.. ان کا مقصد عوام سے مال بٹورنے کے سوا کچھ نھیں.. اس لیے وہ اپنی شعبدہ بازی کو کرامت کا نام دے کر عوام کو بے وقوف بنا رھے ھیں..
حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کوئی شخص اتنا بڑا صاحب کرامت ھے کہ آسمان پہ اڑتا دکھائی دے اور اس کی ذاتی زندگی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی ھے تو جان لو کہ ایسا شخص شیطان تو ھو سکتا ھے لیکن پیر یا اللہ کا ولی ھرگز نھیں ھو سکتا... وہ پیر ھی کیا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کی پاسداری نہ کرے..
ایسا پیر اپنے ساتھ ساتھ اپنے مریدین کو جھنم کا ایدھن ھی بناۓ گا.....!!
Treatments for depression
Treatments OF depression
Psychological treatments
Cognitive behaviour therapy (CBT)
Interpersonal therapy (IPT)
Behaviour therapy
Mindfulness-based cognitive therapy (MBCT)
depression and sprituality
میرے پیارے
! مایوسی یا احساس کم تری کو اپنے قریب بھی مت پھٹکنے دو۔ تمھاری نظروں میں تمھاری کوئی وقعت ہو یا نہ ہو. مگر میری نظروں میں تو تم بہت کچھ ہو۔ اور ویسے بھی انسان آئینے کے بغیر اپنا چہرہ نہیں دیکھ پاتا. اس لیے تم مجھے ہی اپنا آئینہ مان لو اور مجھ سے پوچھو کہ تمھاری کیا اہمیت ہے اور تم کس قیمت کے مالک ہو۔
میرے پیارے
remove deprssion with exercise
نفسیاتی مسائل اور ڈپریشن سے بچاؤ کا آسان طریقہ -ورزش کرنے سے نفسیاتی عارضے کم ہوجاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سائنسدانوں کی نئی تحقیق کے مطابق ہفتے میں تین مرتبہ ورزش کرنے سے ڈپریشن کے عارضے میں 16 فیصد تک کمی آجاتی ہے جبکہ ہفتہ وار ہر اضافی جسمانی ورزش اس بیماری کے امکانات میں مزید کمی کا سبب بنتی ہے، پابندی سے کی جانے والی ورزش ڈپریشن کے ممکنہ مریضوں میں ایک ہی وقت میں جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی صحت کیلئے انتہائی مفید ثابت ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ فارغ اوقات میں تسلسل کے ساتھ کی جانیوالی جسمانی ورزش ڈپریشن سے بچاؤ کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، 20 سے 40 سال کی درمیانی عمر کے ایسے افراد، جنہوں نے پہلے کبھی جسمانی ورزش نہ کی ہو، جب پابندی سے ورزش اور سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیں تو ان میں ڈپریشن کی بیماری میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن دنیا بھر میں پائے جانے والے ذہنی عارضوں میں سب سے عام بیماری ہے اور دنیا بھر میں 35 کروڑ افراد اس کا شکار ہیںn
Sunday 6 November 2016
depression and stress ذہنی دباوؤیا ڈیپریشن
دنیا میں ہر چوتھا فرد کسی نہ کسی
ذہنی مرض کا شکار ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کا
کہناہے کہ دنیا بھر میں 45 سے 50
کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا
ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ پائی
جانے والی دماغی بیماریاں ڈیپریشن اور شیزو فرینیا ہیں
۔ذہنی بیماریوں کی تعداد اتنی زیادہ
ہے کہ اس تحریر میں ا ن کے نام اور مختصرتعارف
بھی لکھناممکن نہیں ہے ۔
پاکستان میں ذہنی امراض کی صورتحال حیران اور پریشان کن
ہے۔ہمارے ملک کی تقریباََ نصف
آبادی ڈیپریشن کا شکار ہے، اس لیے آج اسی پر بات
کرتے ہیں ۔یہ بات میں پوری ذمہ داری
سے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں اکثریت
ان کی ہے جو ڈیپریشن کو مرض ہی نہیں
سمجھتے یعنی یہ مرض اتنا عام ہے۔
پاکستان میں تقریبا 40 فیصد افراد
مختلف قسم کے ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے 20کروڑ
عوام کے ذہنی امراض کے علاج کے لیے صرف 450 سے زائد ماہر ڈاکٹر اور 5 یا 6ہسپتال
موجود ہیں جو کہ انتہائی ناکافی ہیں ۔ دہشت گردی ،بد امنی، خود کش بم دھماکے ،
غربت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ ،خاندانی لڑائی جھگڑے،اور سب سے بڑھ کر عدم تحفظ کا
بڑھتا ہوا احساس ذہنی امراض مثلاََاضطراب، بے چینی، چڑچڑاپن، غصہ ،ڈیپریشن یا
ذہنی دباؤ وغیرہ کا باعث بن رہا ہے ۔
،اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ ہر وقت
افسردہ رہیں ، اپنے کاموں ،مشاغل سے دلچسپی کم یا ختم ہو جائے ،ذہنی یا جسمانی
تھکن محسوس کریں یہ تھکن مسلسل رہے ۔بلا وجہ غصہ آئے، آپ خود کو دوسروں سے اعلی
یاکمتر خیال کرنے لگیں ،ماضی کی غلطیاں پچھتاوے بن جائیں ،خود کو یا دوسروں کو
برے حالات کا ذمہ دار سمجھیں ۔اور مایوس ہو جائیں اگر آپ کی نیند اور بھوک اڑ
جائے ،خود کشی کو دل چاہے تو سمجھ لیں کہ آپ ڈیپریشن کا شکار ہیں۔
امریکہ میں قائم ادارے نے 1992ء میں پہلی مرتبہ دماغی صحت پر عالمی کانفرنس کا نعقاد کیا تھا۔جس میں فیصلہ ہوا کہ ہر سال 10 اکتوبر کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جائے گا ۔اس کا مقصد ذہنی صحت کے متعلق شعور اور آگہی میں اضافہ کرکے صحت مند معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کرنا ہے ۔
ذہنی امراض کے حوالے سے ہمیں ایک
بات بہت توجہ طلب ہے کہ ذہنی بیماریاں جسمانی بیماریوں کا باعث بن سکتی
ہیں۔تحقیق ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو ڈیپریشن کا خطرہ دگنا ہوتاہے ۔ السر ،دمہ
،آدھے سر کا درد، کمر درد، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریاں اعصابی بیماریاں بھی
قابل ذکر ہیں۔ معروف روحانی و نفسیاتی اسکالر خواجہ شمش الدین نے اپنی ایک کتاب
میں ایسی اڑھائی سو بیماریوں کے بارے میں لکھا ہے جو ذہنی امراض سے جسمانی امراض
بن جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ نفسیات کی کتابوں میں اس موضوع پر کافی تحقیقی معلومات
درج ہیں ۔
جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہت سی
جسمانی بیماریوں کا سبب ذہنی بیماریاں ہوتی ہیں۔ ڈیپریشن میں مبتلا لوگ اکثر
ورزش نہیں کرتے، اس لیے موٹاپااور دیگر بہت سی بیماریوں کا آسانی سے شکار ہو
جاتے ہیں ۔وقت پر کھانا نہ کھانا ،نیند پوری نہ ہونا ،اس سے اعصاب ٹوٹ پھوٹ کا
شکار ہو جاتے ہیں اور جسمانی بیماریاں حملہ کر دیتی ہیں ۔
امریکی ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹ کے
مطابق جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں، ایسے لوگوں میں ذہنی دباؤ ہونے والی
بیماریاں جیسے ذیابیطس، امراض دل اور سرطان ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں تاہم
وزن کو کنٹرول کرکے (وزن بذریعہ ورزش کنٹرول کریں) مہلک امراض سے محفوظ رہ کر
فعال اور صحت مندانہ زندگی گزارنا ممکن ہے ۔
ڈیپریشن
کی بیماری کا تعلق جین سیڈپریشن ایک عام
بیماری ہے جو ہر معاشرے میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایسے افراد جن کے دماغ میں ایک
خاص قسم کا کیمیاوی مادہ بہت کم مقدار میں پیدا ہوتا ہے ان میں ڈیپریشن کا عارضہ
نمایاں نظر آتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ میں خاص قسم کے کیمیاوی مادے کے کم
مقدار میں بننے کی وجہ جینیاتی ہوتی ہے۔ جس کا گہرا تعلق بھوک سے بھی ہوتا ہے۔
ڈیپریشن کاہلی اور بے کاری سے پیدا ہوتا ہے ۔اس لیے خود کو مصروف رکھیئے ۔خود کو مصروف رکھنے کے لیے بامقصد کام یا مشغلہ تلاش کریں مثلاََ جس سے آمدن یا صحت میں اضافہ ہو ۔یاد رکھیں خالق نے آپ کو ایک خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا ہے، اس لیے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔احساس برتری بھی ایک ذہنی مرض ہے یاد رکھیں اﷲ کو غرور پسند نہیں ہے، اس لیے خود کو دوسروں سے افضل نہ سمجھیں نفرت، غصے ، پشیمانی ،بدلہ، پریشانی اور حسد کے جذبات کو دل سے نکال دیں۔
اﷲ کی
خوشنودی کے لیے مخالفین کو معاف کر
دیں ۔ضرورت مندوں کی مدد کریں، اس سے دلی سکون ملے گا۔جی بھر کر رونے سے بھی
ڈیپریشن میں کمی آتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اﷲ کے سامنے روئیں ۔مساج ، چہل قدمی
، یوگا ،عبادات خصوصاً نماز کا اہتمام کرنے سے جو ذہنی و قلبی سکون حاصل ہوتا ہے
اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔
باقاعدگی سے نماز
پڑھنے والے لوگ اکثر لمبی عمر پاتے ہیں اور کم ہی بیمار ہوتے ہیں۔
ڈیپریشن تنہائی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لیے ، میل جول بڑھائیں،نئے
دوست بنائیں، فلم، موسیقی، کھیل خاص کر مطالعہ کا مشغلہ اپنائیں اور ہاں،
مسکرانا مت بھولیے ۔
نصیحت
ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر منہ نہ لٹکائیں بلکہ مسکرائیں اتنی سی کوشش سے آپ
ڈیپریشن کے حملے سے بچ سکتے ہیں ۔
تحریر کے اختتام پر مجھے کہنا ہے کہ انسان جب جوان ہو تو ذہنی امراض کا کسی حد تک مقابلہ کر سکتا ہے، لیکن بڑھاپے میں اعصابی کمزوری کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں رہتا،
اس
لیے دین اسلام میں حکم ہے کہ اپنے والدین کو اف تک نہ کہو ، اس لئے معاشرے میں
لوگوں کو
چاہیے
کہ وہ ضعیف العمر افراد پرخصوصی توجہ دیں ۔
|
ڈیپریشن اور دوسرے نفسیاتی مسائل depression and solution
Sunday 29 May 2016
ڈپریشن کا! حل
٭ جب کوئی اپنی غلطی پر شرمندہ ہو کر معذرت کرنا چاہتا ہے، مگر ہم اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
٭ ہر چیز کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔
٭ قوت فیصلہ کی کمی ہوتی اور سنی سنائی کو قابل عمل باور کر لیا جاتا ہے۔
٭ بے حد لالچ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
٭ اﷲ پر بھروسے کی کمی، عقیدے میں کمزوری اور ایمان ڈاواں ڈول ہوتا ہے۔
٭ کرنے کے بعد سوچنے کے عادی بن جاتے ہیں۔
٭ ہم مشورے کی اہمیت نہ دیتے ہوئے خود رائی کو شعار بنالیتے ہیں۔
اگر ہم اس سب کے بجائے اس سہ لفظی پالیسی پر عمل پیرا ہوں تو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، ہمہ وقت ٹینشن، ڈپریشن اور ذہنی کوفت کی جڑ ہی کٹ جائے۔ حکمت عملی کی یہ تکون: ’’گریز‘‘، ’’درگزر‘‘ اور ’’سمجھوتہ‘‘ سے ترکیب پاتی ہے۔ وہ ایک ایک لحظہ جہاں ہم فیصلے کے دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں، اگر ہم بات کو خوامخواہ بڑھاوا دینے، وہم کے مردے میںروح پھونکنے کی ناکام کوشس کرنے اور معذرت قبول نہ کرنے کے روایتی طریقے کے بجائے ہر مقام پر ’’درگزر کی سنّت‘‘، ’’گریز کا عزم‘‘ اور ’’سمجھوتے کا اصول‘‘ اپنا لیں تو اس پر دنیا و آخرت میں حاصل ہونے والی راحتیں شمار سے زیادہ ہیں۔ تجارتی زندگی میں متعدد ایسے مواقع آتے ہیں جہاں ہمیں اس کامیاب اور تیر بہدف پالیسی کو اپنانا چاہیے ہوتا ہے۔دوسری جانب ’’ڈپریشن‘‘ کا سب سے زیادہ تناسب (Ratio) بھی تاجر طبقے میں ہی پایا جاتا ہے۔ ’’ایسا کیوں نہیں ہوا؟‘‘’’ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘’’تم اگر ایسا نہ کرتے تو۔۔۔۔‘‘’’تم نے ایسا کیوں کیا؟؟‘‘
محدثین فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم درگزر سے کام لے کر اپنی زندگی کو خوشگوار رکھتے تھے۔ احادیث میں ہے کبھی چاشت کے وقت آپ علیہ السلام کو بھوک کا احساس ہوتا۔ آپ گھر تشریف لاتے۔ گھروالوں سے پوچھتے: ’’گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘جواب ملتا: ’’کچھ نہیں ہے۔‘‘ تب آپ فرماتے: ’’تو پھر ہم آج روزہ رکھ لیتے ہیں۔‘‘ بس یہ مختصر جواب کئی مسائل کے لیے کافی ہے۔
جہاں پر بھی نوبت ایسے سوالات تک آنے لگے، فوراً سنبھلیے۔ ان سوالات کے پیچھے غصے، قلبی جلن اور ذہنی تناؤ کی جو ایک آگ پوشیدہ ہے اس سے بچ جائیے۔ ’’گریز‘‘، ’’درگزر‘‘ اور’’جانے دیجیے!‘‘ کی مہارت کو اختیار کر لیجیے۔ آپ سکون سے رہیں گے، معمولات متاثر ہوں گے نہ ہی معاملات بگڑیں گے۔ آئیے! اب دیکھتے ہیں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو بنفس نفیس ایک تاجر بھی تھے، ایسے مواقع پر آپ علیہ السلام کا طرز عمل اور اسوہ مبارکہ کیا ہوتا تھا۔
محدثین فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم درگزر سے کام لے کر اپنی زندگی کو خوشگوار رکھتے تھے۔ احادیث میں ہے کبھی چاشت کے وقت آپ علیہ السلام کو بھوک کا احساس ہوتا۔ آپ گھر تشریف لاتے۔ گھروالوں سے پوچھتے: ’’گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘جواب ملتا: ’’کچھ نہیں ہے۔‘‘ تب آپ فرماتے: ’’تو پھر ہم آج روزہ رکھ لیتے ہیں۔‘‘ بس یہ مختصر جواب کئی مسائل کے لیے کافی ہے۔ تصور کیجیے! ایسے موقع پر اگر ہم میں سے کوئی ہو تو وہ کیا کرتا؟ ’’تم نے کھانا کیوں نہیں تیار کیا؟‘‘’’مجھے بتا ہی دیا ہوتا میں بازارسے کچھ لے آتا!‘‘یہ تو بہت معمولی رد عمل ہے جو ہم کرسکتے ہیں، ورنہ واقعات کی دنیا میں جانے کیا کیا ہوتا رہتا ہے۔مذکورہ بالا حدیث سے سبق ملتا ہے کہ جیسی زندگی، جیسے حالات اور جیسی بھی صورت حال سے نباہ کرنا پڑ جائے، ان میں ’’ایڈجسٹمنٹ‘‘ سب سے کامیاب پالیسی ہے۔ اطمینان رہے گا، سکون ملے گا، ہلکی پھلکی اور سبک سیر حیاتی گزارنے کو ملے گی۔
ایک دن آپ تشریف فرما تھے کہ حضرت ام قیس بنت محصنؓ اپنے نومولود بچے کو لے کر حاضر خدمت ہوئیں، تاکہ آپ کوئی چیز چبا کر بچے کو چٹا دیں۔ آپ نے بچے کو گود میں بٹھا لیا۔ گود میں بیٹھتے ہی بچے نے پیشاب کردیا۔ جس سے آپ کے کپڑے بھی پیشاب سے بھیگ گئے۔ مگر نہ آپ ناراض ہوئے، نہ تیوری پہ کوئی بل آیا۔ آپ نے صرف اتنا کیا کہ پانی منگوایا اور جہاں جہاں پیشاب سے کپڑے بھیگے تھے وہاں پر پانی چھڑک دیا۔ (صحیح بخاری) یوں پانی پھرتے ہی سارا معاملہ بھی صاف ہو گیا۔ ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو جھگڑوں کی ایک طویل فہرست ایسی ملے گی جن کی بنیاد بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے ہوتی ہے، جو بالآخر ایک ناختم ہونے والی دشمنی کا باعث بن جاتی ہے۔ معلوم نہیں ایسا کیوں ہے کہ لوگ اتنی اتنی سی باتوں پر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور رائی کا پہاڑ بنالیتے ہیں۔
ایک عرب عالم نے لکھا ہے:
’’اگر گرد بیٹھی ہوئی ہو تو اس کواپنے اوپر نہ اڑائیے اور اگر گرد اڑ رہی ہو تو اپنی ناک کو آستین کے کپڑے سے بند کر لیجیے اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنائیے۔‘‘
Tuesday 17 May 2016
پرسکون زندگی کا راز
کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ وہاں کے بارے میں دو باتیں کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
paksitan is a country where car and the camel share the same road
یعنی پاکستان ایک ایسا ملک ہے ۔۔۔۔۔۔ جس میں کار اور اونٹ ایک سڑک پے چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔۔۔۔ واقعی آپ ٹھیک بات کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
وہ کہنے لگا میں دوسری بات بھی کہنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیا؟۔۔۔۔۔۔
کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔ میں نے وہاں غریب لوگوں کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ ان کے چہروں سے اندازہ ہوتا ہے انہیں کھانا بھی ٹھیک سے نہیں ملتا ۔۔۔۔۔ ان کے پاس نہانے کی چیزیں بھی پوری طرح نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان کے گھر کا میعار اتنا اچھا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں یہ دیکہ کر حیران ہوتا تھاکہ ان کا چہرہ پر سکون ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کھڑے ہوتے تھے ۔۔۔۔۔۔ تو بالکل سیدھے کھڑے ہوتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ میں جتنے لوگوں سے پوچھتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سب کے سب رات کو میٹھی نیند سوتے تھے ۔۔۔۔۔ کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔ مجھے بتائیں اس کی وجہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔
میں نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب اسلام کی برکت ہے ۔۔۔۔۔۔۔
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یاد کرنے سے
ڈپریشن سے متعلق دس غلط فہمیاں
ڈپریشن سے متعلق دس غلط فہمیاں
-
Depression ka nafsiati treatment CLICK THIS IMAGE for video about dp...
-
DEPRESSION AND ROHANIAT ...
-
ز ندگی، جیسے حالات اور جیسی بھی صورت حال سے نباہ کرنا پڑ جائے، ان میں ’’ایڈجسٹمنٹ‘‘ سب سے کامیاب پالیسی ہے۔ اطمینان رہے گا، سکون ملے گا، ہ...