Wednesday 16 November 2016

Depression ka nafsiati treatment


                                  Depression ka nafsiati treatment

            






CLICK THIS IMAGE

 for video about dpression this image youtube home  

Thursday 10 November 2016

مسکراو بھی ....اور سبق بھی حاصل کرو

ایک مرید نے اپنے پیر سے اپنا خواب بیان کیا..
"میں دیکھتا ھوں کہ میری انگلیاں پاخانہ میں بھری ھوئی ھیں اور آپ کی انگلیاں شھد میں.. "
پیر جی نے کہا.. " ھاں ٹھیک تو ھے.. اس میں شک ھی کیا ھے.. ھم ایسے ھی ھیں اور تو ایسا ھے ... "
مرید نے کہا.. "ابھی خواب پورا نھیں ھوا.. یہ بھی دیکھا کہ میں آپ کی انگلیاں چاٹ رھا ھوں اور آپ میری انگیاں چاٹ رھے ھو... "
پیر بھت خفا ھوۓ اور اس کو برا بھلا کہہ کر مجلس سے نکال دیا....
(امثال عبرت)
حکایت کا وھی حاصل ھے کہ مرید تو پیر سے دین حاصل کرنا چاھتا ھے کہ وہ مشابہ شھد کے ھے... اور پیر مرید سے دنیا حاصل کرنا چاھتا ھے کہ وہ مشابہ پاخانہ کے ھے...
اس حکایت کے مصداق آج کل کے بعض نام نھاد پیر ھیں جن کے اندر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فقدان ھے.. ان کا مقصد عوام سے مال بٹورنے کے سوا کچھ نھیں.. اس لیے وہ اپنی شعبدہ بازی کو کرامت کا نام دے کر عوام کو بے وقوف بنا رھے ھیں..
حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کوئی شخص اتنا بڑا صاحب کرامت ھے کہ آسمان پہ اڑتا دکھائی دے اور اس کی ذاتی زندگی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی ھے تو جان لو کہ ایسا شخص شیطان تو ھو سکتا ھے لیکن پیر یا اللہ کا ولی ھرگز نھیں ھو سکتا... وہ پیر ھی کیا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کی پاسداری نہ کرے..
ایسا پیر اپنے ساتھ ساتھ اپنے مریدین کو جھنم کا ایدھن ھی بناۓ گا.....!!

Treatments for depression

Treatments OF depression

There's no one way that people recover from depression, and it's different for everyone. However, there are a range of effective treatments 

Psychological treatments

Psychological treatments  can help you change your thinking patterns and improve your coping skills so you're better equipped to deal with life's stresses and conflicts.

Cognitive behaviour therapy (CBT)

CBT is a  psychological treatment which recognises that the way we think  and act  affects the way we feel. CBT is one of the most effective treatments for depression, and has been found to be useful for a wide range of ages.
CBT involves working with a professional (therapist) to identify thought and behaviour that are either making you more likely to become depressed, or stopping you from getting better .
It works to change your thoughts and behaviour by teaching you to think rationally about common difficulties, helping you to shift negative or unhelpful thought patterns and reactions to a more realistic, positive and problem-solving approach.

Interpersonal therapy (IPT)

IPT is a structured psychological therapy that focuses on problems in personal relationships and the skills needed to deal with these. IPT is based on the idea that relationship problems can have a significant effect on someone experiencing depression, and can even contribute to the cause.
IPT helps you recognise patterns in your relationships that make you more vulnerable to depression. Identifying these patterns means you can focus on improving relationships, coping with grief and finding new ways to get along with others.

Behaviour therapy

While behaviour therapy is a major component of cognitive behaviour therapy (CBT), unlike CBT it doesn’t attempt to change beliefs and attitudes. Instead it focuses on encouraging activities that are rewarding, pleasant or satisfying, aiming to reverse the patterns of avoidance, withdrawal and inactivity that make depression worse.

Mindfulness-based cognitive therapy (MBCT)

MBCT is generally delivered in groups and involves a type of meditation called 'mindfulness meditation'. This teaches you to focus on the present moment – just noticing whatever you’re experiencing, whether it's pleasant or unpleasant – without trying to change it. At first, this approach is used to focus on physical sensations (like breathing), but then moves on to feelings and thoughts.
MBCT can help to stop your mind wandering off into thoughts about the future or the past, and avoid unpleasant thoughts and feelings. This is thought to be helpful in preventing depression from returning because it encourages you to notice feelings of sadness and negative thinking patterns early on, before they become fixed. As a result, you’re able to deal with warning signs earlier and more effectively.

depression and sprituality

                                      DEPRESSION AND ROHANIAT                                                                                                  
                                                                                      میرے پیارے
! مایوسی یا احساس کم تری کو اپنے قریب بھی مت پھٹکنے دو۔ تمھاری نظروں میں تمھاری کوئی وقعت ہو یا نہ ہو. مگر میری نظروں میں تو تم بہت کچھ ہو۔ اور ویسے بھی انسان آئینے کے بغیر اپنا چہرہ نہیں دیکھ پاتا. اس لیے تم مجھے ہی اپنا آئینہ مان لو اور مجھ سے پوچھو کہ تمھاری کیا اہمیت ہے اور تم کس قیمت کے مالک ہو۔
                                                                                   میرے پیارے
! میں یہ نہیں کہتا کہ میں مستجاب الدعوات ہوں۔ مگر میں نے اپنے قیمتی لمحات میں تمھارے لیے دعائیں ضرور کی ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ کسی کے لیے پیٹھ پیچھے کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔ (مسند بزار بہ حوالہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، رقم:4200 ، مناوی نے صحیح کہا ہے) یہ بھی مت سوچو کہ تمھاری دعا یا تمھارے حق میں میری دعا راتوں                                                          رات قبول ہو جائے گی یا فورا اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے                                                      ۔  میرے پیارے

یہ بھی مت سوچو کہ راتوں کو جو خواب تم دیکھتے ہو یا تمھارے لیے میں دیکھتا ہوں، صبح اٹھتے ہی ان کی تعبیر سورج کی روشنی کی طرح سامنے آ جائے گی۔ نہیں نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بہت ممکن ہے کہ تم آج کوئی دعا مانگو اور وہ بیس تیس برس بعد جا کے قبول ہو. یہ بھی ممکن ہے کہ تمھارے پر دادا نے یا ان کے بھی دادا نے کوئی دعا مانگی ہو اور اس دعا کے مصداق تم ٹھہرو. ٹھیک اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو خواب تم نے آج اپنے بچپن یا جوانی میں دیکھا ہو اس کی تعبیر تمھارے بڑھاپے میں تمھیں ملے۔ تم نے قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا تو پڑھی ہی ہوگی، جب انھوں نے دعا کی تھی کہ اے االله میری نسل میں انھی میں سے ایک رسول بھیجنا جو انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے، انھیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کو گناہوں اور ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک کرے ؟ معلوم ہے اس دعا کے مصداق کون ہوئے اور کب ہوئے؟ وہی جن کے ہم نام لیوا ہیں. محمد مصطٰفی صلى االله علیھ وسلم. اور معلوم ہے دادا ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ظہور کب ہوا؟ ان کی دعا کے دو ہزار سال بعد۔ رسول االله صلى االله علیھ وسلم سے پوچھا گیا: آپ کی ابتدا کیا ہے ؟ فرمایا : میرے ابا ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت۔ (تفسیر طبری، ابن کثیر رح نے سند کو صحیح قرار دیا ہے) 
 میرے پیارے
تم نے یوسف علیہ السلام کا خواب بھی سنا ہوگا جب انھوں نے یعقوب علیہ السلام سے کہا تھا کہ اے ابو جان ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور چاند سورج ؛ سب کے سب میرے آگے سجدہ ریز ہیں ؟ معلوم ہے اس کی تعبیر کب پوری ہوئی ؟ تقریبا تیس پینتیس سال بعد جب کہ وہ مصر کے بادشاہ بنائے گئے اور اس دوران ان کے قتل کی سازش بھی ہوئی، انھیں کنویں میں بھی پھینکا گیا، بازار میں ان کی بولی بھی لگائی گئی، زلیخا کی طرف سے انھیں فتنوں میں پھنسانے کی کوشش بھی کی گئی اور انھیں جیل میں بھی ڈال دیا گیا۔ یہاں تک کہ جیل میں ان کا کوئی پرسان حال بھی نہیں تھا، وہ اجنبی ملک میں اجنبی قیدی ہو کر رہ گئے تھے اور کوئی انھیں یاد کرنے والا۔ مگر کوئی تھا جس نے انھیں آنکھیں دی تھیں اور ان آنکھوں کو خواب سے نوازا تھا. وہ ان تمام معاملات سے غافل نہیں تھا. وہ ان کے خواب کو تعبیر دینے کا انتظام فرما رہا تھا. کوئی تھا جس نے یعقوب کی دعائیں سن رکھی تھیں. وہ ان دعاؤں کو حقیقت کا روپ دینے والا تھا. چنانچہ اسی مالک و مختار نے کنویں سے لے کر بازار تک اور بازار سے لے کر جیل تک؛ ایک ایک واقعے کو خلافت ارضی کے حصول کا زینہ بنا دیا . یوں اس خواب کی تعبیر وجود  میں لائی گئی جو یوسف علیہ السلام نے بچپن میں دیکھا تھا. 
 میرے پیارے
میرے اور تمھارے لیے بھی اس واقعے میں غور کرنے کو بہت کچھ ہے۔ تم نے بھی اپنے لیے اور دوسروں کے لیے بہت سی دعائیں مانگی ہوں گی ؟ تم نے بھی میری طرح اپنی زندگی میں بہت سے خواب دیکھے ہوں گے ؟ میں کہتا ہوں ابھی وقت تو آنے دیجیے۔ ساری دعائیں ضرور اپنا اثر دکھائیں گی اور سچے خواب ضرور سچے ثابت ہو کر رہیں گے۔ بس یعقوب علیہ السلام کی طرح صبر جمیل کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی یاس نا امیدی اور محرومی کے احساس سے باہر نکلنا بھی ضروری ہے۔

remove deprssion with exercise


  نفسیاتی مسائل اور ڈپریشن سے بچاؤ کا آسان طریقہ -ورزش کرنے سے نفسیاتی عارضے کم ہوجاتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے سائنسدانوں کی نئی تحقیق کے مطابق ہفتے میں تین مرتبہ ورزش کرنے سے ڈپریشن کے عارضے میں 16 فیصد تک کمی آجاتی ہے جبکہ  ہفتہ وار ہر اضافی جسمانی ورزش اس بیماری کے امکانات میں مزید کمی کا سبب بنتی ہے، پابندی سے کی جانے والی ورزش ڈپریشن کے ممکنہ مریضوں میں ایک ہی وقت میں جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی صحت کیلئے انتہائی مفید ثابت ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ فارغ اوقات میں تسلسل کے ساتھ کی جانیوالی جسمانی ورزش ڈپریشن سے بچاؤ کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، 20 سے 40 سال کی درمیانی عمر کے ایسے افراد، جنہوں نے پہلے کبھی جسمانی ورزش نہ کی ہو، جب پابندی سے ورزش اور سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیں تو ان میں ڈپریشن کی بیماری میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن دنیا بھر میں پائے جانے والے ذہنی عارضوں میں سب سے عام بیماری ہے اور دنیا بھر میں 35 کروڑ افراد اس کا شکار ہیںn

Sunday 6 November 2016

depression and stress ذہنی دباوؤیا ڈیپریشن




                    

کیا آپ ذہنی دباوؤیا ڈیپریشن کا شکار ہیں
دنیا میں ہر چوتھا فرد کسی نہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کا 
کہناہے کہ دنیا بھر میں 45 سے 50 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا
 ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماریاں ڈیپریشن اور شیزو فرینیا ہیں
۔ذہنی بیماریوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس تحریر میں ا ن کے نام اور مختصرتعارف
 بھی لکھناممکن نہیں ہے ۔ پاکستان میں ذہنی امراض کی صورتحال حیران اور پریشان کن
 ہے۔ہمارے ملک کی تقریباََ نصف آبادی ڈیپریشن کا شکار ہے، اس لیے آج اسی پر بات 
کرتے ہیں ۔یہ بات میں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں اکثریت 
ان کی ہے جو ڈیپریشن کو مرض ہی نہیں سمجھتے یعنی یہ مرض اتنا عام ہے۔

پاکستان میں تقریبا 40 فیصد افراد مختلف قسم کے ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے 20کروڑ عوام کے ذہنی امراض کے علاج کے لیے صرف 450 سے زائد ماہر ڈاکٹر اور 5 یا 6ہسپتال موجود ہیں جو کہ انتہائی ناکافی ہیں ۔ دہشت گردی ،بد امنی، خود کش بم دھماکے ، غربت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ ،خاندانی لڑائی جھگڑے،اور سب سے بڑھ کر عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس ذہنی امراض مثلاََاضطراب، بے چینی، چڑچڑاپن، غصہ ،ڈیپریشن یا ذہنی دباؤ وغیرہ کا باعث بن رہا ہے ۔
،اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ ہر وقت افسردہ رہیں ، اپنے کاموں ،مشاغل سے دلچسپی کم یا ختم ہو جائے ،ذہنی یا جسمانی تھکن محسوس کریں یہ تھکن مسلسل رہے ۔بلا وجہ غصہ آئے، آپ خود کو دوسروں سے اعلی یاکمتر خیال کرنے لگیں ،ماضی کی غلطیاں پچھتاوے بن جائیں ،خود کو یا دوسروں کو برے حالات کا ذمہ دار سمجھیں ۔اور مایوس ہو جائیں اگر آپ کی نیند اور بھوک اڑ جائے ،خود کشی کو دل چاہے تو سمجھ لیں کہ آپ ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ 

امریکہ میں قائم ادارے نے 1992ء میں پہلی مرتبہ دماغی صحت پر عالمی کانفرنس کا نعقاد کیا تھا۔جس میں فیصلہ ہوا کہ ہر سال 10 اکتوبر کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جائے گا ۔اس کا مقصد ذہنی صحت کے متعلق شعور اور آگہی میں اضافہ کرکے صحت مند معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کرنا ہے ۔

ذہنی امراض کے حوالے سے ہمیں ایک بات بہت توجہ طلب ہے کہ ذہنی بیماریاں جسمانی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہیں۔تحقیق ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو ڈیپریشن کا خطرہ دگنا ہوتاہے ۔ السر ،دمہ ،آدھے سر کا درد، کمر درد، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریاں اعصابی بیماریاں بھی قابل ذکر ہیں۔ معروف روحانی و نفسیاتی اسکالر خواجہ شمش الدین نے اپنی ایک کتاب میں ایسی اڑھائی سو بیماریوں کے بارے میں لکھا ہے جو ذہنی امراض سے جسمانی امراض بن جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ نفسیات کی کتابوں میں اس موضوع پر کافی تحقیقی معلومات درج ہیں ۔

جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہت سی جسمانی بیماریوں کا سبب ذہنی بیماریاں ہوتی ہیں۔ ڈیپریشن میں مبتلا لوگ اکثر ورزش نہیں کرتے، اس لیے موٹاپااور دیگر بہت سی بیماریوں کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں ۔وقت پر کھانا نہ کھانا ،نیند پوری نہ ہونا ،اس سے اعصاب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور جسمانی بیماریاں حملہ کر دیتی ہیں ۔

امریکی ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں، ایسے لوگوں میں ذہنی دباؤ ہونے والی بیماریاں جیسے ذیابیطس، امراض دل اور سرطان ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں تاہم وزن کو کنٹرول کرکے (وزن بذریعہ ورزش کنٹرول کریں) مہلک امراض سے محفوظ رہ کر فعال اور صحت مندانہ زندگی گزارنا ممکن ہے ۔

ڈیپریشن کی بیماری کا تعلق جین سیڈپریشن ایک عام بیماری ہے جو ہر معاشرے میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایسے افراد جن کے دماغ میں ایک خاص قسم کا کیمیاوی مادہ بہت کم مقدار میں پیدا ہوتا ہے ان میں ڈیپریشن کا عارضہ نمایاں نظر آتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ میں خاص قسم کے کیمیاوی مادے کے کم مقدار میں بننے کی وجہ جینیاتی ہوتی ہے۔ جس کا گہرا تعلق بھوک سے بھی ہوتا ہے۔

ڈیپریشن کاہلی اور بے کاری سے پیدا ہوتا ہے
 ۔اس لیے خود کو مصروف رکھیئے ۔خود کو مصروف رکھنے کے لیے بامقصد کام یا مشغلہ تلاش کریں مثلاََ جس سے آمدن یا صحت میں اضافہ ہو ۔یاد رکھیں خالق نے آپ کو ایک خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا ہے، اس لیے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔احساس برتری بھی ایک ذہنی مرض ہے یاد رکھیں اﷲ کو غرور پسند نہیں ہے، اس لیے خود کو دوسروں سے افضل نہ سمجھیں نفرت، غصے ، پشیمانی ،بدلہ، پریشانی اور حسد کے جذبات کو دل سے نکال دیں۔

اﷲ کی خوشنودی کے لیے مخالفین کو معاف کر دیں ۔ضرورت مندوں کی مدد کریں، اس سے دلی سکون ملے گا۔جی بھر کر رونے سے بھی ڈیپریشن میں کمی آتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اﷲ کے سامنے روئیں ۔مساج ، چہل قدمی ، یوگا ،عبادات خصوصاً نماز کا اہتمام کرنے سے جو ذہنی و قلبی سکون حاصل ہوتا ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔ 

باقاعدگی سے نماز پڑھنے والے لوگ اکثر لمبی عمر پاتے ہیں اور کم ہی بیمار ہوتے ہیں۔
ڈیپریشن تنہائی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لیے ، میل جول بڑھائیں،نئے دوست بنائیں، فلم، موسیقی، کھیل خاص کر مطالعہ کا مشغلہ اپنائیں اور ہاں، مسکرانا مت بھولیے ۔
نصیحت ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر منہ نہ لٹکائیں بلکہ مسکرائیں اتنی سی کوشش سے آپ ڈیپریشن کے حملے سے بچ سکتے ہیں ۔

تحریر کے اختتام پر مجھے کہنا ہے کہ انسان جب جوان ہو تو ذہنی امراض کا کسی حد تک مقابلہ کر سکتا ہے، لیکن بڑھاپے میں اعصابی کمزوری کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں رہتا،
 اس لیے دین اسلام میں حکم ہے کہ اپنے والدین کو اف تک نہ کہو ، اس لئے معاشرے میں لوگوں کو 


چاہیے کہ وہ ضعیف العمر افراد پرخصوصی توجہ دیں ۔







ڈیپریشن اور دوسرے نفسیاتی مسائل depression and solution

                                 
                                            ڈیپریشن اور دوسرے نفسیاتی مسائل


نفسیاتی بیماریوں اور ڈیپریشن دور کرنے کے لیے دواؤں کے مختلف گروپ

سزینکس (Xanax)، ریسٹورل (Restoril) فریسیم (Frisium)

 مضراثرات:٭ غنودگی، منہ خشک ہونا ٭ جسم کے پٹھوں میں اکڑاؤ، ہاتھ اور پاؤں میں رعشہ ٭ نظر میں دھندلاہٹ ٭ متلی، قے ، قبض ٭ دل کی دھڑکن میں اضافہ، جلد پر روشنی کا منفی اثر اور الرجی ٭ مردوں میں چھاتیوں کا ابھار استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سکون آور دوائیں بھی شامل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ڈیپریشن دور کرنے والی دوائیں بھی۔ اس طرح کی چند مشہور دوائیں درج ذیل ہیں: لار جیکٹل (Largactil)، سیرینیس (Serenace) ڈیپریکیپ (Depricap)، لوڈیول (Ludiomilاور عورتوں میں چھاتیوں میں زیادہ دودھ کا اترنا ٭ پریشانی اور ڈیپریشن میں اضافہ اور خودکشی کا رجحان ہونا ٭ کپکپی، سردرد، دست، بخار وغیرہ احتیاط:٭ ڈیپریشن میں سکون آور دوائیں کبھی بھی اپنی مرضی سے استعمال نہ کریں۔ ٭ اگر دوا استعمال کرنے کے بعد کسی قسم کا مضر اثر ہونا شروع ہو تو فوراً دوا بند کر دیں۔ ٭ مرگی، جگر کی خرابی، دل کی بیماریوں، ذیابیطس اور حمل کی صورت میں ان دواؤں کو استعمال نہ کیا جائے
۔ دوا کی نوعیت اور ضرورت کی اہمیت:
نفسیاتی بیماریوں اور ڈیپریشن دور کرنے والی دوائیوں کے بہت مضر اثرات ہوتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسی تمام دواؤں کو ہمیشہ کسی نفسیاتی و ذہنی امراض کے ڈاکٹر کے مشورہ سے استعمال کیا جائے کیونکہ نفسیاتی امراض میں دوا کے استعمال میں خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور دوا کو مریض کی حالت کے مطابق کم یا زیادہ کرنا پڑتا ہے۔
 آسان اور متبادل علاج:
 آج کے دور میں گونا گوں معاشرتی، سماجی مسائل اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہر کوئی پریشان نظر آتا ہے۔ ڈیپریشن تو اتنی عام ہے کہ شاید ہی کوئی فرد ڈیپریشن کے چھوٹے بڑے حملے سے محفوظ رہا ہو۔ روزانہ کسی نہ کسی ایسی صورت حال سے پالا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے خواہ مخواہ کی ڈیپریشن ہو جاتی ہے اور اس کے زیادہ ہونے کی صورت میں تو اس کا نتیجہ خود کشی کی صورت میں نکلتا ہے۔ خود کشی کی وجہ 100 فیصد ڈیپریشن ہے۔ بعض اوقات بغیر کسی وجہ سے ڈیپریشن شروع ہو جاتا ہے اور بڑے بڑے کامیاب لوگ جن کی زندگی ہر لحاظ سے قابل رشک ہوتی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کا زندہ رہنے کو دل نہیں کرتا۔ ڈیپریشن میں انسان خود کو لا چار اور بے بس محسوس کرتا ہے اور کوئی نہ کوئی سہارا ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی حالت میں ڈیپریشن دور کرنے والی دوائیں کچھ نہ کچھ سہاراتو ضرور دیتی ہیں لیکن مستقل مسئلہ کا حل نہیں۔

          ڈیپریشن اور دوسرے نفسیاتی مسائل کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کریں 

۔ ٭ اللہ تعالیٰ پر یقین کامل رکھیں کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اس سے مدد مانگیں 
۔ اپنا کام پوری دل جمعی اور ایمانداری سے کریں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔
 ٭ اللہ تعالیٰ شکر ادا کریں جس نے آپ کو جسمانی اور دنیاوی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگر کوئی ایک نعمت ہے یا چھن گئی ہے تو جو نعمتیں موجود ہیں ان کے لیے اس کا شکریہ ادا کریں اور مزید کے لیے اللہ سے مدد مانگیں۔
٭ اپنے آپ پر اعتماد رکھیں۔ آپ کو ایک خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اللہ نے آپ کو احسن التقویم بنایا ہے۔ اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دیں
 ٭ سیب کو شہد ملے دودھ کے ساتھ استعمال کیا جائے تو ہر طرح کی ڈیپریشن کم ہو جاتی ہے۔

٭ معمول کی چائے اور کافی کی بجائے گلاب کی پتیوں سے قہوہ بنا کر پیا جائے، بہت جلد طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔

٭ کاجو ڈیپریشن کو ختم کرنے میں حیرت انگیز خوبیوں کا حامل ہے۔ موسم سرما میں اس کا استعمال جاری رہنا چاہیے۔

٭ ڈیپریشن میں سیب کا دودھ اور شہد کے ساتھ استعمال اعصاب کو ری چارج کے لیے یہ بہترین نسخہ ہے۔

                     ﴿روزانہ صبح اٹھتے وقت ایک پروگرام بنائیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔﴾

جو چیز زیادہ اہم اور ضروری ہے اسے پہلے کریں۔
اپنے خیالات کو پراگندہ نہ ہونے دیں۔ نفرت، غصے، پشیمانی، پریشانی اور حد کے جذبات کو دل سے نکال دیں
۔ محبت، خوشی، پیار اور ہم آہنگی کے جذبات کو دل میں بسا لیں۔ آپ کا جی راضی ہو گا اور آپ خوش و خرم رہیں گے۔
  سادہ طرز زندگی اپنائیں سادہ غذا کھائیں 
آپ اپنے آپ کو مختلف مشاغل یا فلاحی کاموں میں مصروف کریں۔


 (دوا، غذا اور شفاء از ڈاکٹر آصف محمود جاہ)

Sunday 29 May 2016

ڈپریشن کا! حل

زندگی، جیسے حالات اور جیسی بھی صورت حال سے نباہ کرنا پڑ جائے، ان میں ’’ایڈجسٹمنٹ‘‘ سب سے کامیاب پالیسی ہے۔ اطمینان رہے گا، سکون ملے گا، ہلکی پھلکی اور سبک سیر حیاتی گزارنے کو ملے گیاگر ہم اس سب کے بجائے اس سہ لفظی حکمت پر عمل پیرا ہوں تو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، ہمہ وقت ٹینشن، ڈپریشن اور ذہنی کوفت کی جڑ ہی کٹ جائے۔ وہ ہے: ’’درگزر‘‘،
’’گریز‘‘ اور ’’سمجھوتہ!‘‘ ٭٭٭وہ نکتہ جہاں سے ڈپریشن کا آغاز ہوتا ہے، عام طور پر بہت ہی سادہ اور معمولی ہوتا ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب ہم :٭ کسی معمولی بات کوضرورت سے زیادہ سیریس لے لیتے ہیں٭آپ حد سے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی ’’وہم‘‘ سے رائی کا پہاڑ کھڑا کر لیتے ہیں
٭ جب کوئی اپنی غلطی پر شرمندہ ہو کر معذرت کرنا چاہتا ہے، مگر ہم اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
٭ ہر چیز کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔
٭ قوت فیصلہ کی کمی ہوتی اور سنی سنائی کو قابل عمل باور کر لیا جاتا ہے۔
٭ بے حد لالچ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
٭ اﷲ پر بھروسے کی کمی، عقیدے میں کمزوری اور ایمان ڈاواں ڈول ہوتا ہے۔
٭ کرنے کے بعد سوچنے کے عادی بن جاتے ہیں۔
٭ ہم مشورے کی اہمیت نہ دیتے ہوئے خود رائی کو شعار بنالیتے ہیں۔

اگر ہم اس سب کے بجائے اس سہ لفظی پالیسی پر عمل پیرا ہوں تو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، ہمہ وقت ٹینشن، ڈپریشن اور ذہنی کوفت کی جڑ ہی کٹ جائے۔ حکمت عملی کی یہ تکون: ’’گریز‘‘، ’’درگزر‘‘ اور ’’سمجھوتہ‘‘ سے ترکیب پاتی ہے۔ وہ ایک ایک لحظہ جہاں ہم فیصلے کے دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں، اگر ہم بات کو خوامخواہ بڑھاوا دینے، وہم کے مردے میںروح پھونکنے کی ناکام کوشس کرنے اور معذرت قبول نہ کرنے کے روایتی طریقے کے بجائے ہر مقام پر ’’درگزر کی سنّت‘‘، ’’گریز کا عزم‘‘ اور ’’سمجھوتے کا اصول‘‘ اپنا لیں تو اس پر دنیا و آخرت میں حاصل ہونے والی راحتیں شمار سے زیادہ ہیں۔ تجارتی زندگی میں متعدد ایسے مواقع آتے ہیں جہاں ہمیں اس کامیاب اور تیر بہدف پالیسی کو اپنانا چاہیے ہوتا ہے۔دوسری جانب ’’ڈپریشن‘‘ کا سب سے زیادہ تناسب (Ratio) بھی تاجر طبقے میں ہی پایا جاتا ہے۔ ’’ایسا کیوں نہیں ہوا؟‘‘’’ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘’’تم اگر ایسا نہ کرتے تو۔۔۔۔‘‘’’تم نے ایسا کیوں کیا؟؟‘‘

محدثین فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم درگزر سے کام لے کر اپنی زندگی کو خوشگوار رکھتے تھے۔ احادیث میں ہے کبھی چاشت کے وقت آپ علیہ السلام کو بھوک کا احساس ہوتا۔ آپ گھر تشریف لاتے۔ گھروالوں سے پوچھتے: ’’گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘جواب ملتا: ’’کچھ نہیں ہے۔‘‘ تب آپ فرماتے: ’’تو پھر ہم آج روزہ رکھ لیتے ہیں۔‘‘ بس یہ مختصر جواب کئی مسائل کے لیے کافی ہے۔

جہاں پر بھی نوبت ایسے سوالات تک آنے لگے، فوراً سنبھلیے۔ ان سوالات کے پیچھے غصے، قلبی جلن اور ذہنی تناؤ کی جو ایک آگ پوشیدہ ہے اس سے بچ جائیے۔ ’’گریز‘‘، ’’درگزر‘‘ اور’’جانے دیجیے!‘‘ کی مہارت کو اختیار کر لیجیے۔ آپ سکون سے رہیں گے، معمولات متاثر ہوں گے نہ ہی معاملات بگڑیں گے۔ آئیے! اب دیکھتے ہیں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو بنفس نفیس ایک تاجر بھی تھے، ایسے مواقع پر آپ علیہ السلام کا طرز عمل اور اسوہ مبارکہ کیا ہوتا تھا۔
محدثین فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم درگزر سے کام لے کر اپنی زندگی کو خوشگوار رکھتے تھے۔ احادیث میں ہے کبھی چاشت کے وقت آپ علیہ السلام کو بھوک کا احساس ہوتا۔ آپ گھر تشریف لاتے۔ گھروالوں سے پوچھتے: ’’گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘جواب ملتا: ’’کچھ نہیں ہے۔‘‘ تب آپ فرماتے: ’’تو پھر ہم آج روزہ رکھ لیتے ہیں۔‘‘ بس یہ مختصر جواب کئی مسائل کے لیے کافی ہے۔ تصور کیجیے! ایسے موقع پر اگر ہم میں سے کوئی ہو تو وہ کیا کرتا؟ ’’تم نے کھانا کیوں نہیں تیار کیا؟‘‘’’مجھے بتا ہی دیا ہوتا میں بازارسے کچھ لے آتا!‘‘یہ تو بہت معمولی رد عمل ہے جو ہم کرسکتے ہیں، ورنہ واقعات کی دنیا میں جانے کیا کیا ہوتا رہتا ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے سبق ملتا ہے کہ جیسی زندگی، جیسے حالات اور جیسی بھی صورت حال سے نباہ کرنا پڑ جائے، ان میں ’’ایڈجسٹمنٹ‘‘ سب سے کامیاب پالیسی ہے۔ اطمینان رہے گا، سکون ملے گا، ہلکی پھلکی اور سبک سیر حیاتی گزارنے کو ملے گی۔
ہمیں کبھی بڑے تو کبھی چھوٹے چھوٹے ناگوار واقعات برداشت کرنا پڑ جاتے ہیں۔ تب ہمارا رد عمل تو جو بھی ہوتا ہے، دیکھتے ہیں ہمارے پیغمبر علیہ السلام ایسے موقع پر کیسا سلوک کرتے تھے۔
ایک دن آپ تشریف فرما تھے کہ حضرت ام قیس بنت محصنؓ اپنے نومولود بچے کو لے کر حاضر خدمت ہوئیں، تاکہ آپ کوئی چیز چبا کر بچے کو چٹا دیں۔ آپ نے بچے کو گود میں بٹھا لیا۔ گود میں بیٹھتے ہی بچے نے پیشاب کردیا۔ جس سے آپ کے کپڑے بھی پیشاب سے بھیگ گئے۔ مگر نہ آپ ناراض ہوئے، نہ تیوری پہ کوئی بل آیا۔ آپ نے صرف اتنا کیا کہ پانی منگوایا اور جہاں جہاں پیشاب سے کپڑے بھیگے تھے وہاں پر پانی چھڑک دیا۔ (صحیح بخاری) یوں پانی پھرتے ہی سارا معاملہ بھی صاف ہو گیا۔ ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو جھگڑوں کی ایک طویل فہرست ایسی ملے گی جن کی بنیاد بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے ہوتی ہے، جو بالآخر ایک ناختم ہونے والی دشمنی کا باعث بن جاتی ہے۔ معلوم نہیں ایسا کیوں ہے کہ لوگ اتنی اتنی سی باتوں پر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور رائی کا پہاڑ بنالیتے ہیں۔
شاید ہم یہ نکتہ واضح کرنے میں کامیاب رہے ہیںکہ ہمہ نوع ڈپریشن کے پیچھے دراصل کسی غیر اہم چیز کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا اور غیر ضروری کو ناگزیر کے درجے میں اتارنا ہی اصل سبب کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ اگر ہم ہر چیز کو موقع شناسی، وقت شناسی، مردم شناسی اور مقدار شناسی کے ساتھ انجام دینا شروع کردیں تو پہلے پریشانی اور نتیجتاً پشیمانی سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند! صحابہ کرام کی مثل! دنیا کے کامیاب لوگوں کی طرح!!
ایک عرب عالم نے لکھا ہے:
’’اگر گرد بیٹھی ہوئی ہو تو اس کواپنے اوپر نہ اڑائیے اور اگر گرد اڑ رہی ہو تو اپنی ناک کو آستین کے کپڑے سے بند کر لیجیے اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنائیے۔‘‘

Tuesday 17 May 2016

پرسکون زندگی کا راز

حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ امریکہ میں مجھے ایک کمپنی کا ڈائریکٹر ملا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پی ایچ ڈی تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔ میں بھی پاکستان گیا ہوں ۔۔۔۔ اور وہاں میں نے ایک عجیب بات دیکھی ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔۔۔ وہ کونسی؟۔۔۔۔۔۔

کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ وہاں کے بارے میں دو باتیں کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔

paksitan is a country where car and the camel share the same road

یعنی پاکستان ایک ایسا ملک ہے ۔۔۔۔۔۔ جس میں کار اور اونٹ ایک سڑک پے چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔۔۔۔ واقعی آپ ٹھیک بات کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔

وہ کہنے لگا میں دوسری بات بھی کہنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیا؟۔۔۔۔۔۔

کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔ میں نے وہاں غریب لوگوں کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ ان کے چہروں سے اندازہ ہوتا ہے انہیں کھانا بھی ٹھیک سے نہیں ملتا ۔۔۔۔۔ ان کے پاس نہانے کی چیزیں بھی پوری طرح نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان کے گھر کا میعار اتنا اچھا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں یہ دیکہ کر حیران ہوتا تھاکہ ان کا چہرہ پر سکون ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کھڑے ہوتے تھے ۔۔۔۔۔۔ تو بالکل سیدھے کھڑے ہوتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ میں جتنے لوگوں سے پوچھتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سب کے سب رات کو میٹھی نیند سوتے تھے ۔۔۔۔۔ کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔ مجھے بتائیں اس کی وجہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔
میں نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب اسلام کی برکت ہے ۔۔۔۔۔۔۔

نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یاد کرنے سے

الحمداللہ یہ دین کی برکت ہے آج ہمارے غرباء بھی اپنے گھروں میں آرام کی نیند سوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ ان ملکوں کے امراء بھی اپنے گھروں میں آرام کی نیند نہیں سوتے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارے پاس ایک مثبت پہلو ہے ۔۔۔۔۔۔

(خطبات فقیر)​

ڈپریشن سے متعلق دس غلط فہمیاں

                                                     

                                                          ڈپریشن سے متعلق دس غلط فہمیاں


                                              ڈپریشن اور اداسی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں
یہ بات حقیقیت ہے کہ اداسی کا شدید احساس ڈپریشن کا علامات میں شامل ہوسکتی ہیں تاہم یہ دونوں چیزیں ایک نہیں۔ اداسی وقتی طور پر ہوتی ہے تاہم ڈپریشن دائمی حالت ہے اور اسکی سنگین کنڈیشن خود بہ خود ختم نہیں ہوتی
                                                    یہ دماغی کمزوری  ہے
یہ اس بیماری کے بارے میں بات نہ کرنے کی بہت بڑی وجہ ہے۔ ڈپریشن کوئی چوائس نہیں ہے، یہ ایک پیچیدہ دماغی بیماری ہے جو انسان کو حیاتیاتی، نفسیاتی اور سماجی طور پر متاثر کرتی ہے۔
                                      یہ تکلیف دہ واقعات کی وجہ سے ہوتا ہے
یہ حقیقت ہے کہ کچھ واقعات کے بعد اکثر انسان ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں ہے۔ زندگی پر اثر انداز ہوجانے والے کسی بھی واقعے کے باعث انسان وقتی طور پر ڈپریس ہوسکتا ہے تاہم اگر یہ علامات دو ہفتے سے زائد جاری رہیں تو یہ کسی بڑے مسئلے کا اشارہ ہوسکتا ہے۔
                                                           یہ کوئی  بیماری نہیں
ڈپریشن واقعی ایک بیماری ہے اور اسکو اسی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مایو کلینک کے مطابق ڈپریشن میں مبتلا شخص میں دماغی تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں اور ہورمونز کے عدم توازن کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ ان علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر اسکی شدت کا اندازہ لگاتے ہیں۔
                                                ڈپریشن صرف دماغ پر اثر کرتا ہے
ڈپریشن کے باعث تھکاوٹ، نیند کی کمی، بھوک میں کمی، پٹھوں میں درد، اور سینے میں بھی درد ہوسکتا ہے۔ ڈپریشن کو صرف دماغی بیماری سمجھنے سے ہم کبھی کبھار اسکی سنجیدگی کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔
                                                        ’اصلی مردوں‘ کو ڈپریشن نہیں ہوتا
خواتین میں ڈپریشن ہونے کے امکانات مردوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتے ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد اس بیماری میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مرد اس بیماری کا کسی سے ذکر نہیں کرسکتے اور چپ چاپ اسے سہتے رہیں۔ مرد اکثر اپنے خیالات کا اظہار خواتین کے مقابلے میں مختلف انداز میں کرتے ہیں اور ڈپریشن بھی اسی کڑی کا حصہ ہے۔ اسی وجہ سے معاشرہ اکثر مردوں میں ڈپریشن کی علامات کو نظر انداز کرسکتا ہے جو کہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مرد اکثر اس کے علاج میں خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہچکچاتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی بیماری مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔
            اگر آپ کے والدین ڈپریشن میں مبتلا رہے ہیں تو آپ کو بھی یہ بیماری ہوگی
جنیاتی طور پر کچھ انسانوں میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں تاہم جنیات اس حوالے سے صرف 10 سے 15 فیصد ہی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جدید ترین مطالعات میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص، چاہے اس کے خاندان میں ڈپریشن کی ہسٹری رہی ہو یا نہیں، کو اس کی علامات محسوس ہوں تو اسے فوری طور پر طبی ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے۔
                                           صرف اینٹی ڈپریسنٹس سے مسئلہ حل ہوجائے گا
اینٹی ڈپریسنٹس ایسی صورت حال میں عام طور پر دی جانے والی ادویات ہوتی ہیں تاہم یہ واحد آپشن نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ ڈپریشن سے نمٹنے کے لیے سائیکو تھراپی اور مختلف قسم کے طریقے آزماتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق سب سے بہتر طریقہ تھراپی اور دواؤں کا مجموعہ ہے۔ ادویات لینے والے افراد صبر کا مظاہرہ کریں کیوں کہ اکثر چھ ہفتوں تک اس کے فوائد سامنے نہیں آتے۔ بعض اوقات مختلف طریقہ علاج آزما کر دیکھا جا سکتا ہے کہ آپ کے لیے کون سا طریقہ سب سے موزوں ہے۔
                                       آپ کو زندگی بھر ادویات کی ضرورت پڑے گی
یہ ضروری نہیں اور اس کا انحصار مریض کی حالت پر ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو تھوڑے سے عرصے میں بھی فائدہ ہوجاتا ہے اور نہیں مزید دوا کی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ دیگر کو لمبے عرصے تک ادویات لینا پڑتی ہیں۔ تقریباً چالیس فیصد افراد میں تھراپی ادویات سے زیادہ بہتر نتائج برآمد کرتی ہیں۔
                                                  بات کرنے سے مسئلہ مزید سنگین ہوگا
ابتدائی طور پر اس بات کرنا شاید مشکل ہوسکتا ہے تاہم یہ امید کرنا کہ یہ خود بہ خود ہی ختم ہوجائے گا درست نہیں۔ اس پر بات کرنے سے بہتر تجاویز سامنے آسکتی ہیں اور آپ کو جلد مدد مل سکتی ہے۔ زیادہ افراد کو اس کا علم ہونے سے اس بیماری کے خطرناک حد تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ کو مدد مل سکتی ہے۔