Thursday 10 November 2016

depression and sprituality

                                      DEPRESSION AND ROHANIAT                                                                                                  
                                                                                      میرے پیارے
! مایوسی یا احساس کم تری کو اپنے قریب بھی مت پھٹکنے دو۔ تمھاری نظروں میں تمھاری کوئی وقعت ہو یا نہ ہو. مگر میری نظروں میں تو تم بہت کچھ ہو۔ اور ویسے بھی انسان آئینے کے بغیر اپنا چہرہ نہیں دیکھ پاتا. اس لیے تم مجھے ہی اپنا آئینہ مان لو اور مجھ سے پوچھو کہ تمھاری کیا اہمیت ہے اور تم کس قیمت کے مالک ہو۔
                                                                                   میرے پیارے
! میں یہ نہیں کہتا کہ میں مستجاب الدعوات ہوں۔ مگر میں نے اپنے قیمتی لمحات میں تمھارے لیے دعائیں ضرور کی ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ کسی کے لیے پیٹھ پیچھے کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔ (مسند بزار بہ حوالہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، رقم:4200 ، مناوی نے صحیح کہا ہے) یہ بھی مت سوچو کہ تمھاری دعا یا تمھارے حق میں میری دعا راتوں                                                          رات قبول ہو جائے گی یا فورا اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے                                                      ۔  میرے پیارے

یہ بھی مت سوچو کہ راتوں کو جو خواب تم دیکھتے ہو یا تمھارے لیے میں دیکھتا ہوں، صبح اٹھتے ہی ان کی تعبیر سورج کی روشنی کی طرح سامنے آ جائے گی۔ نہیں نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بہت ممکن ہے کہ تم آج کوئی دعا مانگو اور وہ بیس تیس برس بعد جا کے قبول ہو. یہ بھی ممکن ہے کہ تمھارے پر دادا نے یا ان کے بھی دادا نے کوئی دعا مانگی ہو اور اس دعا کے مصداق تم ٹھہرو. ٹھیک اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو خواب تم نے آج اپنے بچپن یا جوانی میں دیکھا ہو اس کی تعبیر تمھارے بڑھاپے میں تمھیں ملے۔ تم نے قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا تو پڑھی ہی ہوگی، جب انھوں نے دعا کی تھی کہ اے االله میری نسل میں انھی میں سے ایک رسول بھیجنا جو انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے، انھیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کو گناہوں اور ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک کرے ؟ معلوم ہے اس دعا کے مصداق کون ہوئے اور کب ہوئے؟ وہی جن کے ہم نام لیوا ہیں. محمد مصطٰفی صلى االله علیھ وسلم. اور معلوم ہے دادا ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ظہور کب ہوا؟ ان کی دعا کے دو ہزار سال بعد۔ رسول االله صلى االله علیھ وسلم سے پوچھا گیا: آپ کی ابتدا کیا ہے ؟ فرمایا : میرے ابا ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت۔ (تفسیر طبری، ابن کثیر رح نے سند کو صحیح قرار دیا ہے) 
 میرے پیارے
تم نے یوسف علیہ السلام کا خواب بھی سنا ہوگا جب انھوں نے یعقوب علیہ السلام سے کہا تھا کہ اے ابو جان ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور چاند سورج ؛ سب کے سب میرے آگے سجدہ ریز ہیں ؟ معلوم ہے اس کی تعبیر کب پوری ہوئی ؟ تقریبا تیس پینتیس سال بعد جب کہ وہ مصر کے بادشاہ بنائے گئے اور اس دوران ان کے قتل کی سازش بھی ہوئی، انھیں کنویں میں بھی پھینکا گیا، بازار میں ان کی بولی بھی لگائی گئی، زلیخا کی طرف سے انھیں فتنوں میں پھنسانے کی کوشش بھی کی گئی اور انھیں جیل میں بھی ڈال دیا گیا۔ یہاں تک کہ جیل میں ان کا کوئی پرسان حال بھی نہیں تھا، وہ اجنبی ملک میں اجنبی قیدی ہو کر رہ گئے تھے اور کوئی انھیں یاد کرنے والا۔ مگر کوئی تھا جس نے انھیں آنکھیں دی تھیں اور ان آنکھوں کو خواب سے نوازا تھا. وہ ان تمام معاملات سے غافل نہیں تھا. وہ ان کے خواب کو تعبیر دینے کا انتظام فرما رہا تھا. کوئی تھا جس نے یعقوب کی دعائیں سن رکھی تھیں. وہ ان دعاؤں کو حقیقت کا روپ دینے والا تھا. چنانچہ اسی مالک و مختار نے کنویں سے لے کر بازار تک اور بازار سے لے کر جیل تک؛ ایک ایک واقعے کو خلافت ارضی کے حصول کا زینہ بنا دیا . یوں اس خواب کی تعبیر وجود  میں لائی گئی جو یوسف علیہ السلام نے بچپن میں دیکھا تھا. 
 میرے پیارے
میرے اور تمھارے لیے بھی اس واقعے میں غور کرنے کو بہت کچھ ہے۔ تم نے بھی اپنے لیے اور دوسروں کے لیے بہت سی دعائیں مانگی ہوں گی ؟ تم نے بھی میری طرح اپنی زندگی میں بہت سے خواب دیکھے ہوں گے ؟ میں کہتا ہوں ابھی وقت تو آنے دیجیے۔ ساری دعائیں ضرور اپنا اثر دکھائیں گی اور سچے خواب ضرور سچے ثابت ہو کر رہیں گے۔ بس یعقوب علیہ السلام کی طرح صبر جمیل کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی یاس نا امیدی اور محرومی کے احساس سے باہر نکلنا بھی ضروری ہے۔

No comments:

Post a Comment