Sunday 29 May 2016

ڈپریشن کا! حل

زندگی، جیسے حالات اور جیسی بھی صورت حال سے نباہ کرنا پڑ جائے، ان میں ’’ایڈجسٹمنٹ‘‘ سب سے کامیاب پالیسی ہے۔ اطمینان رہے گا، سکون ملے گا، ہلکی پھلکی اور سبک سیر حیاتی گزارنے کو ملے گیاگر ہم اس سب کے بجائے اس سہ لفظی حکمت پر عمل پیرا ہوں تو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، ہمہ وقت ٹینشن، ڈپریشن اور ذہنی کوفت کی جڑ ہی کٹ جائے۔ وہ ہے: ’’درگزر‘‘،
’’گریز‘‘ اور ’’سمجھوتہ!‘‘ ٭٭٭وہ نکتہ جہاں سے ڈپریشن کا آغاز ہوتا ہے، عام طور پر بہت ہی سادہ اور معمولی ہوتا ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب ہم :٭ کسی معمولی بات کوضرورت سے زیادہ سیریس لے لیتے ہیں٭آپ حد سے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی ’’وہم‘‘ سے رائی کا پہاڑ کھڑا کر لیتے ہیں
٭ جب کوئی اپنی غلطی پر شرمندہ ہو کر معذرت کرنا چاہتا ہے، مگر ہم اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
٭ ہر چیز کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔
٭ قوت فیصلہ کی کمی ہوتی اور سنی سنائی کو قابل عمل باور کر لیا جاتا ہے۔
٭ بے حد لالچ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
٭ اﷲ پر بھروسے کی کمی، عقیدے میں کمزوری اور ایمان ڈاواں ڈول ہوتا ہے۔
٭ کرنے کے بعد سوچنے کے عادی بن جاتے ہیں۔
٭ ہم مشورے کی اہمیت نہ دیتے ہوئے خود رائی کو شعار بنالیتے ہیں۔

اگر ہم اس سب کے بجائے اس سہ لفظی پالیسی پر عمل پیرا ہوں تو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، ہمہ وقت ٹینشن، ڈپریشن اور ذہنی کوفت کی جڑ ہی کٹ جائے۔ حکمت عملی کی یہ تکون: ’’گریز‘‘، ’’درگزر‘‘ اور ’’سمجھوتہ‘‘ سے ترکیب پاتی ہے۔ وہ ایک ایک لحظہ جہاں ہم فیصلے کے دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں، اگر ہم بات کو خوامخواہ بڑھاوا دینے، وہم کے مردے میںروح پھونکنے کی ناکام کوشس کرنے اور معذرت قبول نہ کرنے کے روایتی طریقے کے بجائے ہر مقام پر ’’درگزر کی سنّت‘‘، ’’گریز کا عزم‘‘ اور ’’سمجھوتے کا اصول‘‘ اپنا لیں تو اس پر دنیا و آخرت میں حاصل ہونے والی راحتیں شمار سے زیادہ ہیں۔ تجارتی زندگی میں متعدد ایسے مواقع آتے ہیں جہاں ہمیں اس کامیاب اور تیر بہدف پالیسی کو اپنانا چاہیے ہوتا ہے۔دوسری جانب ’’ڈپریشن‘‘ کا سب سے زیادہ تناسب (Ratio) بھی تاجر طبقے میں ہی پایا جاتا ہے۔ ’’ایسا کیوں نہیں ہوا؟‘‘’’ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘’’تم اگر ایسا نہ کرتے تو۔۔۔۔‘‘’’تم نے ایسا کیوں کیا؟؟‘‘

محدثین فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم درگزر سے کام لے کر اپنی زندگی کو خوشگوار رکھتے تھے۔ احادیث میں ہے کبھی چاشت کے وقت آپ علیہ السلام کو بھوک کا احساس ہوتا۔ آپ گھر تشریف لاتے۔ گھروالوں سے پوچھتے: ’’گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘جواب ملتا: ’’کچھ نہیں ہے۔‘‘ تب آپ فرماتے: ’’تو پھر ہم آج روزہ رکھ لیتے ہیں۔‘‘ بس یہ مختصر جواب کئی مسائل کے لیے کافی ہے۔

جہاں پر بھی نوبت ایسے سوالات تک آنے لگے، فوراً سنبھلیے۔ ان سوالات کے پیچھے غصے، قلبی جلن اور ذہنی تناؤ کی جو ایک آگ پوشیدہ ہے اس سے بچ جائیے۔ ’’گریز‘‘، ’’درگزر‘‘ اور’’جانے دیجیے!‘‘ کی مہارت کو اختیار کر لیجیے۔ آپ سکون سے رہیں گے، معمولات متاثر ہوں گے نہ ہی معاملات بگڑیں گے۔ آئیے! اب دیکھتے ہیں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو بنفس نفیس ایک تاجر بھی تھے، ایسے مواقع پر آپ علیہ السلام کا طرز عمل اور اسوہ مبارکہ کیا ہوتا تھا۔
محدثین فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم درگزر سے کام لے کر اپنی زندگی کو خوشگوار رکھتے تھے۔ احادیث میں ہے کبھی چاشت کے وقت آپ علیہ السلام کو بھوک کا احساس ہوتا۔ آپ گھر تشریف لاتے۔ گھروالوں سے پوچھتے: ’’گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘جواب ملتا: ’’کچھ نہیں ہے۔‘‘ تب آپ فرماتے: ’’تو پھر ہم آج روزہ رکھ لیتے ہیں۔‘‘ بس یہ مختصر جواب کئی مسائل کے لیے کافی ہے۔ تصور کیجیے! ایسے موقع پر اگر ہم میں سے کوئی ہو تو وہ کیا کرتا؟ ’’تم نے کھانا کیوں نہیں تیار کیا؟‘‘’’مجھے بتا ہی دیا ہوتا میں بازارسے کچھ لے آتا!‘‘یہ تو بہت معمولی رد عمل ہے جو ہم کرسکتے ہیں، ورنہ واقعات کی دنیا میں جانے کیا کیا ہوتا رہتا ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے سبق ملتا ہے کہ جیسی زندگی، جیسے حالات اور جیسی بھی صورت حال سے نباہ کرنا پڑ جائے، ان میں ’’ایڈجسٹمنٹ‘‘ سب سے کامیاب پالیسی ہے۔ اطمینان رہے گا، سکون ملے گا، ہلکی پھلکی اور سبک سیر حیاتی گزارنے کو ملے گی۔
ہمیں کبھی بڑے تو کبھی چھوٹے چھوٹے ناگوار واقعات برداشت کرنا پڑ جاتے ہیں۔ تب ہمارا رد عمل تو جو بھی ہوتا ہے، دیکھتے ہیں ہمارے پیغمبر علیہ السلام ایسے موقع پر کیسا سلوک کرتے تھے۔
ایک دن آپ تشریف فرما تھے کہ حضرت ام قیس بنت محصنؓ اپنے نومولود بچے کو لے کر حاضر خدمت ہوئیں، تاکہ آپ کوئی چیز چبا کر بچے کو چٹا دیں۔ آپ نے بچے کو گود میں بٹھا لیا۔ گود میں بیٹھتے ہی بچے نے پیشاب کردیا۔ جس سے آپ کے کپڑے بھی پیشاب سے بھیگ گئے۔ مگر نہ آپ ناراض ہوئے، نہ تیوری پہ کوئی بل آیا۔ آپ نے صرف اتنا کیا کہ پانی منگوایا اور جہاں جہاں پیشاب سے کپڑے بھیگے تھے وہاں پر پانی چھڑک دیا۔ (صحیح بخاری) یوں پانی پھرتے ہی سارا معاملہ بھی صاف ہو گیا۔ ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو جھگڑوں کی ایک طویل فہرست ایسی ملے گی جن کی بنیاد بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے ہوتی ہے، جو بالآخر ایک ناختم ہونے والی دشمنی کا باعث بن جاتی ہے۔ معلوم نہیں ایسا کیوں ہے کہ لوگ اتنی اتنی سی باتوں پر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور رائی کا پہاڑ بنالیتے ہیں۔
شاید ہم یہ نکتہ واضح کرنے میں کامیاب رہے ہیںکہ ہمہ نوع ڈپریشن کے پیچھے دراصل کسی غیر اہم چیز کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا اور غیر ضروری کو ناگزیر کے درجے میں اتارنا ہی اصل سبب کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ اگر ہم ہر چیز کو موقع شناسی، وقت شناسی، مردم شناسی اور مقدار شناسی کے ساتھ انجام دینا شروع کردیں تو پہلے پریشانی اور نتیجتاً پشیمانی سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند! صحابہ کرام کی مثل! دنیا کے کامیاب لوگوں کی طرح!!
ایک عرب عالم نے لکھا ہے:
’’اگر گرد بیٹھی ہوئی ہو تو اس کواپنے اوپر نہ اڑائیے اور اگر گرد اڑ رہی ہو تو اپنی ناک کو آستین کے کپڑے سے بند کر لیجیے اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنائیے۔‘‘

No comments:

Post a Comment